حضرت امام محمد تقی (ع) نے فرمایا: ظالم اورظالم کےمددگاراورظالم کے فعل کی تعریف کرنے والے ایک ہی زمرے میں آتے ہیں اور اللہ تعالی کی رضا کا حصول تین چیزوں استغفار،فروتنی اور کثرت صدقہ کے ذریعہ ممکن ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی نے تاریخ اسلام کے حوالے سے نقل کیا ہے کہحضرت امام محمد تقی (ع) نے فرمایا: ظالم اورظالم کےمددگاراورظالم کے فعل کی تعریف کرنے والے ایک ہی زمرے میں آتے ہیں اور اللہ تعالی کی رضا کا حصول تین چیزوں استغفار،فروتنی اور کثرت صدقہ کے ذریعہ ممکن ہے۔ علماء کا بیان ہے کہ  حضرت امام محمد تقی (ع) کے مختصرحکیمانہ اقوال  کابھی حضرت علی (ع) کے اقوال کی طرح  ایک ذخیرہ ہے، جناب امیرعلیہ السلام کے بعدامام محمدتقی علیہ السلام کے اقوال کوایک خاص درجہ حاصل ہے بعض علماء نے آپ کے اقوال  کوتعدادکئی ہزاربتائی ہے علامہ شبلنجی بحوالہ فصول المہمہ تحریرفرماتے ہیں کہ حضرت امام محمدتقی علیہ السلام کااراشادہے کہ :
۱ ۔ خداوندعالم جسے جونعمت دیتاہے بہ ارادہ دوام دیتاہے ، لیکن اس سے وہ اس وقت زائل ہوجاتی ہے جب وہ لوگوں یعنی مستحقین کودینابندکردیتاہے ۔
۲ ۔ ہرنعمت خداوندی میں مخلوق کاحصہ ہے جب کسی کوعظیم نعمتیں دیتاہے تولوگوں کی حاجتیں بھی کثیرہوجاتی ہیں اس موقع پراگرصاحب نعمت (مالدار) عہدہ برآہوسکاتوخیرورنہ نعمت کازوال لازمی ہے۔
۳ ۔ جوکسی کوبڑاسمجھتاہے اس سے ڈرتاہے۔
۴ ۔ جس کی خواہشات زیادہ ہوں گی اس کاجسم موٹاہوگا۔

 ۵ ۔ صحیفہ حیات مسلم کاسرنامہ ”حسن خلق“ ہے۔
۶ ۔ جوخداکے بھروسے پرلوگوں سے بے نیازہوجائے گا، لوگ اس کے محتاج ہوں گے۔

 ۷ ۔ جوخداسے ڈرے گاتولوگ اسے دوست رکھیں گے۔
۸ ۔ انسان کی تمام خوبیوں کامرکززبان ہے۔

 ۹ ۔ انسان کے کمالات کادارومدارعقل کے کمال پرہے ۔
۱۰ ۔ انسان کے لیے فقرکی زینت ”عفت “ ہے خدائی امتحان کی زینت شکرہے حسب کی زینت تواضع اورفرتنی ہے کلام کی زینت ”فصاحت“ ہے روایات کی زینت ”حافظہ“ ہے علم کی زینت انکساری ہے ورع وتقوی کی زینت ”حسن ادب “ ہے قناعت کی زینت ”خندہ پیشانی“ ہے ورع وپرہیزگاری کی زینت تمام مہملات سے کنارہ کشی ہے۔
۱۱ ۔ ظالم اورظالم کےمددگاراورظالم کے فعل کے سراہانے والے ایک ہی زمرے میں ہیں یعنی سب کادرجہ برابرہے۔
۱۲ ۔ جوزندہ رہناچاہتاہے اسے چاہئے کہ برداشت کرنے کے لیے اپنے دل کوصبرآزمابنالے۔
۱۳ ۔ خداکی رضاحاصل کرنے کے لیے تین چیزیں ہونی چاہئیں اول استغفار دوم نرمی اورفروتنی سوم کثرت صدقہ۔
۱۴ ۔ جوجلدبازی سے پرہیزکرے گا لوگوں سے مشورہ لے گا ،اللہ پربھروسہ کرے گاوہ کبھی شرمندہ نہیں ہوگا۔

 ۱۵ ۔ اگرجاہل زبان بندرکھے تواختلافات نہ ہوں گے۔

 ۱۶ ۔ تین باتوں سے دل موہ لیے جاتے ہیں ۱ ۔ معاشرہ انصاف ۲ ۔ مصیبت میں ہمدردی ۳ ۔ پریشان خاطری میں تسلی ۔
۱۷ ۔ جوکسی بری بات کواچھی نگاہ سے دیکھے گا، وہ اس میں شریک سمجھاجائے گا۔

 ۱۸ ۔ کفران نعمت کرنے والاخداکی ناراضگی کودعوت دیاہے۔
۱۹ ۔ جوتمہارے کسی عطیہ پرشکریہ اداکرے، گویااس نے تمہیں اس سے زیادہ دیدیا۔
۲۰ ۔ جواپنے بھائی کوپوشیدہ طورپرنصیحت کرے وہ اس کاحسن ہے، اورجوعلانیہ نصیحت کرے،گویااس نے اس کے ساتھ برائی کی۔
۲۱ ۔ عقلمندی اورحماقت جوانی کے قریب تک ایک دوسرے پرانسان پرغلبہ کرتے رہتے ہیں اورجب ۱۸ سال پورے ہوجاتے ہیں تواستقلال پیداہوجاتاہے اورراہ معین ہوجاتی ہے ۔
۲۲ ۔ جب کسی بندہ پرنعمت کانزول ہواوروہ اس نعمت سے متاثرہوکریہ سمجھے کہ یہ خداکی عنایت ومہربانی ہے توخداوندعالم کاشکرکرنے سے پہلے اس کانام شاکرین میں لکھ لیتاہے اورجب کوئی گناہ کرنے کے ساتھ یہ محسوس کرے کہ میں خداکے ہاتھ میں ہوں، وہ جب اورجس طرح چاہے عذاب کرسکتاہے تو خداوندعالم اسے استغفارسے قبل بخش دیتاہے۔
۲۳ ۔ شریف وہ ہے جوعالم ہے اورعقلمندوہ ہے جومتقی ہے۔ ۲۴ ۔ جلدبازی کرکے کسی امرکوشہرت نہ دو، جب تک تکمیل نہ ہوجائے ۔
۲۵ ۔ اپنی خواہشات کواتنانہ بڑھاؤکہ دل تنگ ہوجائے۔ ۲۶ ۔ اپنے ضعیفوں پررحم کرو اوران پرترحم کے ذریعہ سے اپنے لیے خداسے رحم کی درخواست کرو۔
۲۷ ۔ عام موت سے بری موت وہ ہے جوگناہ کے ذریعہ سے ہو اورعام زندگی سے خیروبرکت کے ساتھ والی زندگی بہترہے۔
۲۸ ۔ جوخداکے لیے اپنے کسی بھائی کو فائدہ پہنچائے وہ ایساہے جیسے اس نے اپنے لیے جنت میں گھربنالیا۔
۲۹ ۔ جوخداپراعتمادرکھے اوراس پرتوکل اوربھروسہ کرے خدااسے ہربرائی سے بچاتاہے اوراس کی ہرقسم کے دشمن سے حفاظت کرتاہے۔
۳۰ ۔ دین عزت ہے، علم خزانہ ہے اورخاموشی نورہے۔ ۳۱ ۔ زہدکی انتہاورع وتقوی ہے۔

 ۳۲ ۔ دین کوتباہ کردینے والی چیزبدعت ہے۔
۳۳ ۔ انسان کوبربادکرنے والی چیز”لالچ“ ہے۔ ۳۴ ۔ حاکم کی صلاحیت رعایاکی خوشحالی کادارومدارہے۔ ۳۵ ۔ دعاکے ذریعہ سے ہربلاٹل جاتی ہے ۔
۳۶ ۔ جوصبروضبط کے ساتھ میدان میں آجائے وہ کامیاب ہوگا۔ ۳۷ ۔ جودنیامیں تقوی کابیج بوئے گا آخرت میں دلی مرادوں کاپھل پائے گا۔(نورالابصار ص ۱۴۸ طبع مصر)۔

حضرت امام محمدتقی علیہ السلام کے بعض کرامات

صاحب تفسیرعلامہ حسین واعظ کاشفی کابیان ہے کہ حضرت امام محمدتقی علیہ السلام کے کرامات بے شمارہیں (روضة الشہدا ص ۴۳۸) میں بعض کاتذکرہ مختلف کتب سے کرتاہوں ۔
علامہ عبدالرحمن جامی تحریرکرتے ہیں کہ :
۱ ۔ مامون رشیدکے انتقال کے بعدحضرت امام محمدتقی علیہ السلام نے ارشادفرمایاکہ اب تیس ماہ بعدمیرا بھی انتقال ہوگا، چنانچہ ایساہی ہوا۔
۲ ۔ ایک شخص نے آپ کی خدمت میں حاضرہوکرعرض کیاکہ ایک مسماة (ام الحسن) نے آپ سے درخواست کی ہے کہ اپناکوئی جامہ کہنہ دیجیے تاکہ میں اسے اپنے کفن میں رکھوں آپ نے فرمایاکہ اب جامہ کہنہ کی ضرورت نہیں ہے روای کابیان ہے کہ میں وہ جواب لے کرجب واپس ہواتومعلوم ہواکہ ۱۳ ۔ ۱۴ دن ہوگئے ہیں کہ وہ انتقال کرچکی ہے۔
۳ ۔ ایک شخص (امیہ بن علی) کہتاہے کہ میں اورحمادبن عیسی ایک سفرمیں جاتے ہوئے حضرت کی خدمت میں حاضرہوئے تاکہ آپ سے رخصت ہولیں، آپ نے ارشادفرمایاکہ تم آج اپناسفرملتوی کردو، چنانچہ میں حسب الحکم ٹہرگیا، لیکن میراساتھی حمادبن عیسی نے کہاکہ میں نے ساراسامان سفرگھرسے نکال رکھاہے اب اچھانہیں معلوم ہوتا کہ سفرملتوی کردوں، یہ کہہ کروہ روانہ ہوگیا اورچلتے چلتے رات کو ایک وادی میں جاپہنچا اوروہیں قیام کیا، رات کے کسی حصہ میں عظیم سیلاب آگیا،اوروہ تمام لوگوں کے ساتھ حمادکوبھی بہاکرلے گیا )شواہدالنبوت ص ۲۰۲) ۔
۴ ۔ علامہ اربلی لکھتے ہیں کہ معمربن خلادکابیان ہے کہ ایک دن مدینہ منورہ میں جب کہ آپ بہت کمسن تھے مجھ سے فرمایاکہ چلومیرے ہمراہ چلو! چنانچہ میں ساتھ ہوگیا حضرت نے مدینہ سے باہرنکل کرے ایک وادی میں جاکرمجھ سے فرمایاکہ تم ٹھرجاؤ میں ابھی آتاہوں چنانچہ آپ نظروں سے غائب ہوگئے اورتھوڑی دیرکے بعد واپس ہوئے واپسی پرآپ بے انتہاء ملول اوررنجیدہ تھے، میں نے پوچھا : فرزندرسول ! آپ کے چہرہ مبارک سے آثارحزن وملال کیوں ہویداہیں ارشادفرمایاکہ اسی وقت بغدادسے واپس آرہاہوں وہاں میرے والدماجدحضرت امام رضاعلیہ السلام زہرسے شہیدکردئیے گئے ہیں میں ان پرنمازوغیرہ اداکرنے گیاتھا۔
۵ ۔ قاسم بن عبادالرحمن کابیان ہے کہ میں بغدادمیں تھا میں نے دیکھاکہ کسی شخص کے پاس تمام لوگ برابرآتے جاتے ہیں میں نے دریافت کیا کہ جس کے پاس آنے جانے کاتانتابندھاہواہے یہ کون ہیں؟ لوگوں نے کہاکہ ابوجعفرمحمدبن علی علیہ السلام ہیں ابھی یہ باتیں ہوہی رہی تھیں کہ آپ ناقہ پرسواراس طرف سے گذرے ،قاسم کہتاہے کہ انہیں دیکھ کرمیں نے دل میں کہا کہ وہ لوگ بڑے بیوقوف ہیں جوآپ کی امامت کے قائل ہیں اورآپ کی عزت وتوقیرکرتے ہیں، یہ توبچے ہیں اورمیرے دل میں ان کی کوئی وقعت محسوس نہیں ہوتی، میں اپنے دل میں یہی سوچ رہاتھا کہ آپنے قریب آکرفرمایاکہ ایے قاسم بن عبدالرحمن جوشخص ہماری اطاعت سے گریزاں ہے وہ جہنم میں جائے گا آپ کے اس فرمانے پرمیں نے خیال کیاکہ یہ جادوگرہیں کہ انہوں نے میرے دل کے ارادے کومعلوم کرلیاہے جیسے ہی یہ خیال میرے دل میں آیاآپ نے فرمایاکہ تمہارے خیال بالکل غلط ہیں تم اپنے عقیدے کی اصلاح کرو یہ سن کرمیں نے آپ کی امامت کااقرارکیا اورمجھے مانناپڑاکہ آپ حجت اللہ ہیں۔
۶ ۔ قاسم بن الحسن کابیان ہے کہ میں ایک سفرمیں تھا ، مکہ اورمدینہ کے درمیان ایک مفلوج الحال شخص نے مجھ سے سوال کیا،میں نے اسے روٹی کاایک ٹکڑا دیدیا ابھی تھوڑی دیرگذری تھی کہ ایک زبردست آندھی آئی اوروہ میری پگڑی اڑاکرلے گئی میں نے بڑی تلاش کی لیکن وہ دستیاب نہ ہوسکی جب میں مدینہ پہنچا اورحضرت امام محمدتقی علیہ السلام سے ملنے گیاتوآپ نے فرمایاکہ اے قاسم تمہاری پگڑی ہوااڑالے گئی میں نے عرض کی جی حضور!آپ نے اپنے ایک غلام کوحکم دیاکہ ان کی پگڑی لے آؤ غلام نے پگڑی حاضرکی میں نے بڑے تعجب سے دریافت کیاکہ مولا! یہ پگڑی یہاں کیسے پہنچی ہے آپ نے فرمایاکہ تم نے جورہ خدامیں روٹی کاٹکڑادیاتھا، اسے خدانے قبول فرمالیاہے، ایے قاسم خداوندعالم یہ نہیں چاہتا جواس کی راہ میں صدقہ دیے وہ اسے نقصان پہنچنے دے۔

امام محمدتقی کی نظربندی، قیداورشہادت

معتصم نے مدینہ الرسول(ص)  سے فرزندرسول خدا (ص) کوبغداد طلب کرکے قیدکردیا، علامہ اربلی لکھتے ہیں ، کہ چون معتصم بخلافت بہ نشست آنحضرت راازمدینہ طیبہ بدارالخلافة بغداد آورد وحبس نمود(کشف الغمہ ص ۱۲۱( ۔
ایک سال تک آپ نے قیدکی سختیاں صرف اس جرم میں برداشت کیں کہ آپ کمالات امامت کے حامل کیوں ہیں اورآپ کوخدانے یہ شرف کیوں عطا فرمایاہے بعض علماء کاکہناہے کہ آپ پراس قدرسختیاں تھیں اوراتنی کڑی نگرانی اورنظربندی تھی کہ آپ اکثراپنی زندگی سے بیزارہوجاتے تھے بہرحال وہ وقت آگیا کہ آپ صرف ۲۵/ سال ۳ ماہ ۱۲/ یوم کی عمرمیں قیدخانہ کے اندرآخری ذیقعدہ (بتاریخ ۲۹/ ذیقعدہ ۲۲۰ ہجری یوم سہ شنبہ) معتصم کے زہرسے شہیدہوگئے (کشف الغمہ ص ۱۲۱ ، صواعق محرقہ ص ۱۲۳ ، روضة الصفاجلد ۳ ص ۱۶ ، اعلام الوری ص ۲۰۵ ، ارشاد ص ۴۸۰ ، انوارالنعمانیہ ص ۱۲۷ ، انوارالحسینیہ ص ۵۴) ۔
آپ کی شہادت کے متعلق ملامبین کہتے ہیں کہ معتصم عباسی نے آپ کوزہرسے شہیدکیا (وسیلة النجات ص ۲۹۷) علامہ ابن حجرمکی لکھتے ہیں کہ آپ کوامام رضا (ع) کی طرح زہرسے شہیدکیاگیا(صواعق محرقہ ص ۱۲۳) علامہ حسین واعظ کاشفی لکھتے ہیں کہ ”گویندیہ زہرشہیدشہ“ کہتے ہیں کہ آپ زہرسے شہیدہوئے (روضة الشہداء ص ۴۳۸) ۔ ملاجامی کی کتاب میں ہے ”قیل مات مسموما“ کہاجاتاہے کہ آپ کی وفات زہرسے ہوئی ہے (شواہدالنبوت ص ۲۰۴) ۔علامہ نعمت اللہ جزائری لکھتے ہیں کہ ”مات مسموما قدسمم المعتصم“ آپ زہرسے شہیدہوئے ہیں اوریقینا معتصم نے آپ کوزہردیاہے، انوارالعنمانیہ ص ۱۹۵)
علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ انہ مات مسموما آپ زہرسے شہیدہوئے ہیں یقال ان ام الفضل بنت المامون سقتہ ،بامرابیہا“ کہاجاتاہے کہ آپ کوآپ کی بیوی ام الفضل نے اپنے باپ مامون کے حکم کے مطابق (معتصم کی مددسے) زہردے کرشہیدکیا (نورالابصارص ۱۴۷ ،ارحج المطالب ص ۴۶۰) ۔
مطالب یہ ہواکہ مامون رشیدنے امام محمدتقی کے والدماجدامام رضا (ع) کواوراس کی بیٹی نے امام محمدتقی کوبقول امام شبلنجی شہیدکرکے اپنے وطیرہ مستمرة اوراصول خاندانی کوفروغ بخشاہے ، علامہ موصوف لکھتے ہیں کہ دخلت امراتہ ام الفضل الی قصرالمعتصم “ کہ امام محمدتقی کوشہیدکرکے ان کی بیوی ام الفضل معتصم کے پاس چلی گئی بعض معاصرین لکھتے ہیں کہ امام علیہ السلام نے شہادت کے وقت ام الفضل کے بدترین مستقبل کاذکرفرمایاتھا جس کے نتیجہ میں اس کے ناسور ہوگیاتھا اوروہ آخرمیں دیوانی ہوکرمری۔
مختصریہ کہ شہادت کے بعد امام علی نقی علیہ السلام نے آپ کی تجہیزوتکفین میں شرکت کی اورنمازجنازہ پڑھائی اوراس کے بعدآپ مقابرقریش اپنے جدنامدار حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے پہلومیں دفن کئے گئے چونکہ آپ کے داداکالقب کاظم اورآپ کالقب جوادبھی تھا اس لیے اس شہرت کوآپ کی شرکت سے ”کاظمین“ اوروہاں کے اسٹیشن کوآپ کے داداکی شرکت کی رعایت سے جوادین“ کہاجاتاہے۔
آپ کو کاظمین میں دفن کیا گيا، کاظمین میں جوشاندارروضہ بناہواہے اس پربہت سے تعمیری دورگزرے لیکن اس کی تعمیر تکمیل شاہ اسماعیل صفوی نے ۹۶۶ ہجری مطابق ۱۵۲۰ ء میں کرائی ۱۲۵۵ ہجری مطابق ۱۸۵۶ ء میں محمدشاہ قاچارنے اسے جواہرات سے مرصع کیا۔