مہر خبررساں ایجنسی نے تاریخ اسلام کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ امیرالمؤمنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام مکہ مکرمہ میں بروز جمعہ ، تیرہ رجب سن تیس عام الفیل کوخانہٴ کعبہ میں پیدا ہوئے۔ آپ سے پہلے اور آپ کے بعد کوئی شخص بھی بیت اللہ میں پیدا نہیں ہوا۔ یہ اللہ تعالی کی طرف سے حضرت علی (ع) کی عظمت وجلالت اور منزلت کا خصوصی اہتمام ہے(1)
صاحبب بحار نے یزید بن قعنب کے حوالے سے نقل کیا ہے ، جس میںوہ کہتے ہیں کہ میں، عباس بن عبد المطلب اور عبدالعزیٰ کے ایک گروہ کے ساتھ خانہ کعبہ کے سامنے بیٹھا ہوا تھا ۔وہاں حضرت امیر المومنین کی والدہ ماجدہ جناب فاطمہ بنت اسد تشریف لائیں۔ جب آپ کو درد زہ شروع ہوا توآپ نے خدا کی بارگاہ میں عرض کیا:
"رب انی مؤمنة بک و بما جاء من عندک من رسل و کتب وانی مصدقة بکلام جدی ابراھیم الخلیل فبحق الذی بنی ھذا البیت وبحق المولود الذی فی بطنی لمایسَّرت علیَّ ولادتی۔
بارالھا! میں تجھ پر ایمان رکھتی ہوں اور تو نے جو رسول (علیھم السلام ) بھیجے اور جو کتابیں نازل کی ہیں'ان پر ایمان رکھتی ہوں ، میں اس گھر کی بنیاد رکھنے والے اپنے جد امجد حضرت ابراھیم خلیل اللہ علیہ السلام کے کلام کی تصدیق کرتی ہوں اور اپنے شکم میں موجودبچہ کا واسطہ دے کر کھتی ہوں مجھ پر اس کی ولادت کو آسان فرما۔
یزید کہتا ہے کہ ھم نے دیکھا کہ دیوار کعبہ شق ہوئی اور جناب فاطمہ بنت اسدبیت اللہ میں داخل ہوگئیںاور ہماری نظروں سے اوجھل ہوگئیں، دیوار کا شگاف آپس میں مل گیا۔ ھم نے کوشش کی کہ دروازے پر لگا تالا کھولیں لیکن وہ تالانہ کھل سکا تو ہم نے سوچا کہ یقینا خدا کا یہی حکم ہے ۔
تین ر روز بعد فاطمہ(ع) باہر تشریف لائیں تو آپ نے حضرت امیر المومنین کو اٹھایا ہوا ہے، آپ فرماتی ہیں: جب میں بیت اللہ سے باہر نکلنے لگی تو ہاتف غیبی کی جانب سے یہ آواز بلند ہوئی اے فاطمہ(ع) اس بچےکا نام علی (ع) رکھنا ۔ (2)
حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی والدہ فاطمہ بنت اسد فرماتی ہیں
خداوندعالم نے مجھے پھلی تمام خواتین پر فضیلت عطا فرمائی کیونکہ آسیہ بنت مزاحم، اللہ تعالی کی عبادت چھپ کر وہاں کیا کرتیں تھیںجہاں اللہ تعالی اضطراری حالت کے علاوہ عبادت کو پسند نھیں کرتا اور مریم بنت عمران کھجور کی شاخوں کو اپنے ہاتھوں سے نیچے کرتیںتا کہ اس سے خشک کھجوریں تناول کر سکیں جبکہ میں بیت اللہ میں جنت کے پھل تناول کرتی رہی اور جب میں نے بیت اللہ سے باھر نکلنے کا ارادہ کیا تو ہاتف غیبی کی آواز آئی ۔
اے فاطمہ اسکا نام علی (ع)رکھنا کیونکہ یہ علی(ع) ہے اور اللہ علی الاعلیٰ ہے مزید فرمایا اسکا نام میرے نام سے نکلا ہے میں نے اسے اپنا ادب عطا کیا ہے اور اپنے پوشیدہ علوم سے آگاہ کیا ہے یہی میرے گھر میں موجود بتوں کو توڑے گا ،اس کی محبت اور اطاعت کرنے والا خوش بخت ہے اوراس سے بغض رکھنے اور نافرمانی کرنیوالے کے لئے لعنت اور بدبختی ہے(3)
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فاطمہ بنت اسد علیھاالسلام سے فرمایا:
اس کو میرے بستر کے قریب رہنے دیا کرو ۔اکثرحضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی علیہ السلام کی تربیت کے فرائض انجام دیتے ، نہلانے کے وقت ان کو نہلاتے، بھوک کے وقت دودھ پلاتے، نیند کے وقت جھولا جھلاتے اور بیداری کے وقت ان کو لوریاں دیتے تھے ۔اپنے سینے اور کندھوں پر سوار کرکے فرمایا کرتے تھے۔ یہ میرا بھائی ،میرا ولی ،میرامددگار، میراوصی، میرا خزانہ اورمیراقلعہ ہے۔(5)
آپ کا اسم گرامی
آپ کا مشھور نام (حضرت )علی (ع) ہے اور آپ کے ناموں میں اسد اور حیدر کا بھی ذکر ہوا ہے کیونکہ حضرت علی علیہ السلام خود فرماتے ہیں ۔
"سمتنی امی حیدرہ "
میری ماں نے میرا نام حیدر رکھا ہے۔
حضرت علی کی کنیت:
حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی جو کنیتیں حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہیں وہ یہ ہیں۔
"ابوالحسن،ابوالحسین،ابوالسبطین،ابوالریحانتین وابوتراب "
حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ھیں ۔حسن (ع)اور حسین (ع) نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات میں کبھی مجھے یا اباہ(اے ابا جان) کہہ کے نھیں پکارا بلکہ وہ ھمیشہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یااباہ کھتے تھے جبکہ حسن (ع) مجھے یا اباالحسین، اور حسین(ع)مجھے یاا باالحسن کہہ کر پکارتے تھے۔
حضرت علی (ع) کے القاب:
حضرت کے القاب مندرجہ ذیل ہیں
امیر الموٴمنین، یعسوب الدین والمسلمین، مبیرالشرک والمشرکین ،قاتل الناکثین والقاسطین والمارقین مولی الموٴمنین شبیہ ھارون المرتضی نفس الرسول، اٴخوہ رسول،زوج البتول، سیف الله المسلول، اٴبوالسبطین،اٴمیر البررہ، قاتل الفجرہ، قسیم الجنة والنار ، صاحب اللواء، سید العرب والعجم، وخاصف النعل،کاشف الکرب ، الصدّیق الاٴکبر، ابوالریحا نتین ، ذوالقرنین ، الھادی ، الفاروق، الواعی، الشاھد، وباب المدینة وبیضة البلد، الولي ، والوصي ، والقاضی دین الرسول، و منجز وعدہ۔
………………………..
(1) ارشاد شیخ مفید ۺ،ج ۱ ص ۵
(2)بحار ج ۳۵ ص ۸
(3)کشف الغمہ ج ۱ ص ۶۰
(4) منتھی الامال ج۱ ص۲۸۳
(5) کشف الغمہ ج ۱ ص ۶۰