مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای شام کے حالات کے بارے میں خطاب کریں گے۔
ہزاروں افراد حسینیہ امام خمینی (رح) پہنچ گئے۔
کچھ ہی دیر بعد حسینیہ امام خمینی میں زندگی کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے رہبر معظم سے ملاقات کریں گے جس کے دوران رہبر معظم مشرق وسطی کے حالات مخصوصا شام میں تکفیری دہشت گردوں کے حملوں اور بشار الاسد کی حکومت کے سقوط کے بارے میں خطاب کریں گے۔
ہزاروں افراد حسینیہ امام خمینی (رح) پہنچ گئے۔
لبنان میں حزب اللہ اور صہیونی حکومت کے درمیان جنگ بندی ہوتے ہی شام میں تکفیری دہشت گردوں نے بیرونی عناصر کے ساتھ مل کر ادلب اور حلب پر حملہ کیا اور گذشتہ روز دمشق تک پہنچ کر صدر بشار الاسد کی حکومت کو ختم کردیا ہے۔
رہبر معظم انقلاب نے فرمایا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ شام میں جو کچھ ہوا، اس کی منصوبہ بندی امریکہ اور اسرائیل کے کمانڈ روم میں ہوئی ہے اور ہمارے پاس اس کے شواہد موجود ہیں۔
انہوں نے فرمایا کہ ایک ہمسایہ ملک کا بھی کردار اس میں واضح ہے لیکن منصوبہ ساز اصل میں امریکہ اور صہیونی رژیم ہیں۔
انہوں نے فرمایا کہ مقاومت کی حقیقت یہ ہے کہ جتنا دباؤ بڑھ جائے، مقاومت مزید مستحکم ہوتی ہے۔ جتنی جنایت کی جائے، مزید حوصلہ بڑھتا ہے۔ اس کے خلاف جتنی جنگ کی جائے، اس کا دائرہ مزید وسیع ہوجاتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اللہ کی نصرت سے مقاومت پہلے سے زیادہ وسیع ہوگی اور پورے خطے میں پھیل جائے گی۔
انہوں نے مزید فرمایا کہ مقاومت کے معنی اور حقیقت سے بے خبر تجزیہ کار کہتے ہیں کہ مقاومت کمزور ہوگئی ہے؛ اسلامی جمہوریہ ایران بھی کمزور ہوگا۔ میں عرض کروں گا کہ اللہ کی مدد اور اذن سے ایران طاقتور اور مضبوط ہے۔ آئندہ مزید مضبوط ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اللہ کی مدد سے شام کے مقبوضہ علاقوں کو شامی جوان آزاد کریں گے۔ یقین رکھیں ایسا ہوکر رہے گا۔ مقاومتی بلاک امریکہ کو خطے کو باہر کردے گا۔
البتہ شام پر حملہ کرنے والوں کے الگ الگ اہداف ہیں۔ بعض شام کے شمال اور بعض جنوب سے آکر شام پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ امریکہ خطے میں اپنے قدم جمانا چاہتا ہے۔ یہ ان کے اہداف ہیں تاہم وقت ثابت کرے گا کہ ان شاء اللہ ان میں سے کوئی بھی اپنا ہدف حاصل نہیں کرسکے گا۔ شام کے مقبوضہ علاقے شامی جوانوں کے ذریعے آزاد ہوں گے۔ اس میں کوئی شک نہ کرے۔ ایسا ہوکر رہے گا۔
امریکی قدم اکھڑ جائیں گے۔ اللہ کی مدد اور قوت سے مقاومتی بلاک امریکہ کو خطے سے نکال باہر کردے گا۔
شام میں داعش کے دور میں ایران کی موجودگی کی وجو ہات، رہبر معظم انقلاب
رہبر انقلاب اسلامی نے آج صبح عوام کے مختلف طبقوں سے ملاقات میں خطے کی حالیہ صورت پر گفتگو کی:
داعش کے فتنے بارے میں، داعش کا مطلب ایک نا امنی پیدا کرنے والا بم ہے۔ داعش کا مقصد پہلے عراق، شام اور خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنا تھا، پھر اصل نقطہ اور حتمی مقصد کی طرف آنا تھا اور وہ تھا اسلامی جمہوریہ ایران کو غیر مستحکم کرنا۔ یہ ان کا بنیادی اور آخری مقصد تھا۔ داعش کا یہی معنی ہے۔
ہم موجود تھے، ہماری افواج عراق اور شام دونوں ملکوں میں دو وجوہات کی بنا پر موجود تھیں۔
ایک وجہ مقدس مقامات کا تحفظ تھا۔ کیونکہ وہ روحانیت اور مذہب اور عقائد سے ہٹ کر مقدس مقامات کو تباہ کرنا چاہتے تھے، اور تخریب بھی کی جیسا کہ آپ نے مشاہدہ کیا کہ انہوں نے سامرا میں امریکہ کی مدد سے حرم مطہر کے گنبد کو نقصان پہنچایا۔ وہ اسی طرح نجف، کربلا، کاظمین اور دمشق میں تخریب کاری کے درپے تھے، یہ داعش کا ہدف تھا۔
یہ بات واضح ہے کہ اہل بیت سے محبت کرنے والا غیرت مند اور مومن نوجوان کبھی بھی اس طرح کی توہین برداشت نہیں کرے گا اور ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ یہ ایک وجہ ہے ایران کی شام میں موجودگی کی۔
دوسری وجہ سیکورٹی کا مسئلہ تھا۔ ملک کے متعلقہ حکام کو جلد ہی احساس ہوا کہ اگر اس نا امنی اور فتنہ انگیزی کو یہاں نہ روکا گیا تو یہ مزید پھیلے گی اور ہمارے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے گی۔
داعشی فتنے کی نا امنی کوئی معمولی بات نہیں تھی
امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا: جو قوم دشمن کے ساتھ اپنے گھر میں برسر پیکار ہوجائے۔(دشمن کو اندر گھسنے کا موقع دے) وہ ذلیل و خوار ہو گی، اسے اپنے گھر تک پہنچنے مت دو۔
اس لئے ہماری افواج، ہمارے ممتاز جرنیل چلے گئے، ہمارے عزیز شہید سلیمانی اور ان کے ساتھی چلے گئے، انہوں نے جوانوں کو عراق اور شام میں منظم کیا، پہلے عراق، پھر شام میں مسلح کیا، ان کے اپنے ہی جوان، داعش کے مقابلے میں کھڑے ہوئے اور داعش کی کمر توڑ ڈالی، وہ داعش پر غلبہ پانے میں کامیاب ہوئے۔
عراق اور شام میں ہماری فوجی موجودگی کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ہم اس ملک کی فوج کے بجائے اپنی فوجیں وہاں لے جائیں گے۔ ہرگز نہیں۔
جو کچھ ہماری افواج کر سکتی تھی وہ عسکری رہنمائی اور مشاورت کا کام تھا؟ مشاورت کا مطلب بنیادی اور مرکزی اڈوں کی تشکیل، حکمت عملی اور ٹیکٹیکس کا تعین اور ضرورت پڑنے پر میدان جنگ میں کودنا، لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ سارا عمل اس خطے کے نوجوانوں کو متحرک کرنے کے ذریعے انجام پائے، البتہ یقیناً ہمارے نوجوان، ہمارے بسیجی بھی بے تاب اور مشتاق تھے، ان میں سے بہت سے چلے بھی گئے۔
دشمن کی جارحیت، راہ مزاحمت کی درستی کے بارے میں شکوک و شہبات کو دور کرتی ہے/ حزب اللہ کے آہنی مکّے نے سید حسن کی شہادت کے بعد دشمن کو جنگ بندی کی درخواست کرنے پر مجبور کر دیا
عوام کے مختلف طبقوں سے خطاب کرتے ہوئے خطے کی حالیہ صورت حال کے بارے میں فرمایا کہ مزاحمت اس طرح ہے؛ جب وہ دشمن کے وحشیانہ جرائم کو دیکھتے ہیں تو جن کو شک تھا کہ مزاحمت کریں یا نہ کریں،وہ شک سے باہر آجاتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ ظالم، جابر اور بدمعاش کے مقابلے میں سینہ سپر ہونے کے سوا انسان اپنا راستہ جاری نہیں رکھ سکتا، اسے ہر صورت میں کھڑا ہونا چاہیے۔ مزاحمت کا مطلب یہ ہے۔
آپ لبنان میں حزب اللہ کو دیکھیں، کیا حزب اللہ پر ٹوٹنے والی مصیبت کوئی معمولی چیز تھی؟ حزب اللہ نے سید حسن نصراللہ جیسے رہنما کو کھو دیا، کیا یہ چھوٹی سی بات تھی؟ لیکن حزب اللہ کے حملے، حزب اللہ کی طاقت، حزب اللہ کی استقامت پہلے سے کہیں زیادہ ہو گئی۔ دشمن بھی اس بات کو سمجھ گیا اور تسلیم کیا۔
انہوں نے سوچا کہ اب جب کہ حزب اللہ کو شدید نقصان پہنچا ہے تو وہ لبنانی سرزمین میں داخل ہو سکتے ہیں، حزب اللہ کو پیچھے دھکیل سکتے ہیں یہاں تک کہ وہ کسی خاص جگہ کی طرف مثلاً دریائے لیطانی تک پیشقدمی کرسکتے ہیں ، لیکن وہ آگے نہیں بڑھ سکے، حزب اللہ نے انہیں روکا اور پوری قوت کے ساتھ یوں ڈٹ گئی کہ دشمن نے خود جنگ بندی کا کہا۔ یہ ہے مزاحمت۔
یقیناً شام کے غیرت مند جوان اٹھ کھڑے ہوں گے اور دشمن پر غلبہ پائیں گے، جس طرح عراقی جوانوں نے امریکیوں کو نکال باہر کیا۔
رہبر معظم انقلاب نے آج صبح عوام کے مختلف طبقوں سے ملاقات میں خطے کی حالیہ صورت حال کے بارے میں میں فرمایا کہ سب جان لیں کہ صورت حال ہرگز ایسی نہیں رہے گی
اب جب کہ ایک گروہ دمشق اور دیگر جگہوں پر آ کر جشن منانے لگے، رقص کر رہا ہے، لوگوں کے گھروں پر حملے کر رہا اور صیہونی حکومت بھی بمباری کر رہی اور ٹینک اور توپوں کے ساتھ اس ملک میں گھس آئی ہے، لیکن یہ معاملہ ایسے نہیں رہے گا۔ یقیناً شام کے غیرت مند جوان اٹھ کھڑے ہوں گے، استقامت دکھائیں گے، قربانیاں دیں گے، تکلیفیں اٹھائیں گے، لیکن اس صورت حال پر قابو پالیں گے۔ جیسا کہ عراق کے غیرت مند جوانوں نے کیا۔
عراق کے غیرت مند جوان ہمارے عزیر شہید (قاسم سلیمانی) کی مدد، رہنمائی اور تدبیر سے دشمن کو گلیوں اور گھروں سے نکال باہر کرنے میں کامیاب ہوئے ورنہ امریکی عراق میں بھی یہی فتنہ کھڑا کر رہے تھے۔
اپڈیٹ جاری ہے....
آپ کا تبصرہ