مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ ایران میں 30 نومبر کو یومِ مجلس شورائے اسلامی منایا جاتا ہے، جو 1906 میں پہلی ایرانی پارلیمنٹ کے قیام کی یاد تازہ کرتا ہے۔
یہ دن ایران کے آئینی انقلاب کے تناظر میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے، جس کا مقصد بادشاہت کی طاقت کو محدود کرکے جمہوری پارلیمانی نظام قائم کرنا تھا۔
یہ دن جمہوری اصولوں کی اہمیت اور ایران میں پارلیمانی نظام کے حصول کے لئے کی گئی جدوجہد کی یاد تازہ کرتا ہے۔
ایرانی اس دن کو کس طرح مناتے ہیں
حکومتی اہلکار اور عوام مختلف تقاریب میں شرکت کرتے ہیں جن میں پارلیمنٹ کی اہمیت اور ملک کے جمہوری عمل میں اس کے کردار پر روشنی ڈالنے کے لئے تقاریر کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں اکثر آئینی انقلاب اور پارلیمانی جمہوریت کی اہمیت کے بارے میں لیکچر اور نشستیں منعقد کی جاتی ہیں۔
اس موقع پر آپ کو نمائشیں اور ثقافتی پروگرام مل سکتے ہیں جو ایرانی تاریخ، ادب اور فنون کو اجاگر کرتے ہوئے آزادی اور جمہوریت کے مثالی نمونوں کو زیر بحث لاتے ہیں۔
قومی ذرائع ابلاغ میں مضامین، دستاویزی فلمیں اور پارلیمنٹ کی تاریخ اور معاصر ایرانی معاشرے پر اس کے اثرات پر پروگرام پپیش کئے جاتے ہیں۔
آیت اللہ سید حسن مدرس کون تھے؟
آیت اللہ سید حسن مدرس ایران کے ایک ممتاز عالم دین اور سیاست دان تھے جو ایران کے آئینی انقلاب اور بعد میں ہونے والی سیاسی پیش رفت میں اپنے اہم کردار کے لئے جانے جاتے ہیں۔
مدرس 1870 میں ایران میں پیدا ہوئے اور دینی علوم خاص طور پر اسلامی فقہ پر عبور حاصل کیا۔
انہوں نے ایرانی آئینی انقلاب (1911-1905) کے دوران اہم کردار ادا کیا۔ وہ پارلیمانی نظام کے زبردست حامی اور شاہی اختیارات کو محدود کرنے کے قائل تھے۔
آیت اللہ مدرس آمریت کی مخالفت کے لئے شہرت رکھتے تھے، خاص طور پر رضا پہلوی کے دور میں انہوں نے عوامی حقوق کی وکالت کی اور ایسی اصلاحات پر زور دیا جو اسلامی اقدار اور آئینی تحریک کے نظریات سے ہم آہنگ ہوں۔
انہیں شاہ کی پالیسیوں کے خلاف اپنے ٹھوس موقف اور واضح مخالفت کی وجہ سے قید اور جلاوطنی کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم ان کی مزاحمت نے انہیں ایران میں جمہوریت اور دینی حکومت کے لئے جدوجہد کا استعارہ بنا دیا۔
ایرانی پارلیمنٹ میں آیت اللہ مدرس کا کردار
آیت اللہ مدرس ایران کی پارلیمنٹ کے ایک رکن کے طور پر، آئینی جمہوریت کے ایک مضبوط حامی تھے اور ایرانی آئینی انقلاب کے دوران قائم کردہ اصولوں کو برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کرتے تھے۔
انہوں نے اس بات کو یقینی بنانے کے لئے بھرپور جد وجہد کی کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار حاصل ہو اور بادشاہت کی طاقت محدود ہو۔ آیت اللہ مدرس کی فعال مزاحمت بالآخر 1937 میں ان کی شہادت کا باعث بنی۔
پارلیمنٹ کا ڈھانچہ
اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ ملک کے وسیع سیاسی فریم ورک کے اندر ایک منفرد ڈھانچہ رکھتی ہے۔ درج ذیل اہم عناصر اس آئینی ادارے کی ساخت کو بیان کرتے ہیں:
قانون ساز اسمبلی: ایران کی پارلیمنٹ 290 ممبران پر مشتمل ہوتی ہے۔ وہ چار سال کی مدت کے لیے عوام کے ووٹ کے ذریعے براہ راست منتخب ہوتے ہیں۔ اراکین پارلیمنٹ ایران بھر میں مختلف حلقوں کی نمائندگی کرتے ہیں، ہر صوبے کے نمائندوں کی تعداد اس کی آبادی کی بنیاد پر ہوتی ہے۔
نشستوں کی تعداد
رائے دہندگان پارلیمنٹ میں خدمات انجام دینے کے لئے 290 ارکان کا انتخاب کرتے ہیں۔
اجلاس
پارلیمنٹ میں عام طور پر باقاعدہ اجلاسوں میں بات چیت اور قانون سازی کے لئے مخصوص نظام الاوقات طے کیا جاتا ہے۔
امیدوار کا انتخاب
امیدواروں کو شورائے نگہبان سے تائید حاصل کرنا ضروری ہے، جو اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ وہ اسلامی اصولوں اور اسلامی جمہوریت کی اقدار کی پاسداری کرتے ہیں۔ یہ کونسل انتخابات کو منظم کرنے اور امیدواروں کی جانچ پڑتال میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
پارلیمنٹ کی سربراہی
پارلیمنٹ کی قیادت کا ڈھانچہ کچھ یوں ہے: اسپیکر کا انتخاب اراکین پارلیمنٹ کے ذریعے کیا جاتا ہے اور وہ اجلاسوں کی صدارت کرنے، رسمی اور سفارتی معاملات میں پارلیمنٹ کی نمائندگی کا ذمہ دار ہوتا ہے۔
کمیٹیاں
پارلیمنٹ کو کئی اہم کمیٹیوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جیسے "اکنامک کمیٹی"، "فارن پالیسی اینڈ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی"، "ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کمیٹی"، اور "ہیلتھ اینڈ میڈیکل کیئر کمیٹی" وغیرہ۔
یہ کمیٹیاں مجوزہ قانون سازی کا تجزیہ کرنے، سماعت کرنے اور رپورٹس تیار کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
قانون سازی کا عمل
قانون سازی کے عمل میں درج ذیل کلیدی مراحل شامل ہیں: عوامی نمائندوں یا حکومتی وزراء قانون کی جانن سے قانون کی تجویز کے بعد، اسمبلی کے عام اجلاسوں میں بحث کی جاتی ہے اور مجوزہ قانون سازی کو تفصیلی جانچ اور سفارشات کے لیے متعلقہ کمیٹی کو بھیجا جاتا ہے۔ کمیٹی کے جائزے کے بعد، تجویز کو دوبارہ بحث اور ووٹنگ کے لیے پارلیمنٹ میں لایا جاتا ہے۔ منظوری کے لیے عام طور پر سادہ اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے اور جب ایک بار مجلس قانون پاس کرتی ہے تو اسے نظرثانی کے لئے شورائے نگہبان کو بھیجا جاتا ہے۔ اگر شوری اسے منظور کر لیتی ہے تو قانون نافذ ہو جاتا ہے۔
بصورت دیگر اسے نظر ثانی کے لیے واپس پارلیمنٹ بھیجا جا سکتا ہے۔ شورائے نگہبان پارلیمنٹ کے انتظامی امور سمیت وزراء اور سرکاری افسران سے پوچھ گچھ اور حکومتی کارکردگی کی تحقیقات کر سکتی ہے، اور اگر ضروری سمجھے تو وزیروں کے خلاف مواخذے کی کارروائی بھی شروع کر سکتی ہے۔