ایرانی صدر مسعود پیزکیان نے زور دے کر کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران فیصلہ کرے گا کہ اسرائیل کی جانب سے تہران میں اسماعیل ہنیہ کے قتل کا کب اور کیسے جواب دیا جائے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے زور دے کر کہا کہ اسرائیلی حکومت اپنی تباہی کے خطرے کو روکنے اور ناجائز وجود کی بقاء کے لیے مغربی ایشیا میں جنگ کا دائرہ بڑھانا چاہتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل غزہ میں اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکا اور حماس کو تباہ نہیں کر سکا، البتہ اسرائیلی رجیم نے صرف ایک ہی چیز حاصل کی وہ یہ کہ پورے شہر کو تباہ کر دیا اور انسانی امداد تک پہنچنے نہیں دی۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو موجودہ بحران کے ذریعے اپنی سیاسی بقاء چاہتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اسرائیل کو جنگ کے دائرے میں توسیع سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا کیونکہ اسے جھوٹی اقدار  اور دوہرا معیار رکھنے والوں کی حمایت حاصل ہے۔

پزشکیان نے اسرائیلی حکومت کے جرائم کے لیے امریکہ اور بعض یورپی ریاستوں کی حمایت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل خطے میں جو کچھ کر رہا ہے وہ نسل کشی ہے۔

انہوں نے جولائی میں تہران میں حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کے اسرائیلی قتل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اسرائیلی جارحیت کے بارے میں اپنے ردعمل کے وقت، انداز اور حد کے بارے میں فیصلہ کرے گا۔

ایران کی سپاہ پاسدارن انقلان کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق، اسماعیل ہنیہ اور ان کے ایک محافظ کو 31 جولائی کو تہران میں ان کی رہائش گاہ کو نشانہ بنا کر شہید کر دیا گیا تھا۔

اس بیان میں کہا گیا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کے قتل کی منصوبہ صیہونی حکومت کی طرف سے کی گئی تھی جب کہ امریکہ نے اس کی حمایت کی تھی۔

صدر پزشکیان نے کہا کہ ایران کی فوجی طاقت اور اس کے میزائل اور ہتھیار اپنے دفاع کے لیے ہیں۔

انہوں نے 2015 کے جوہری معاہدے (JCPOA) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایران کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن واشنگٹن نے جو وعدہ کیا تھا اسے پورا نہیں کیا۔اس وقت ہمیں بات چیت کے معاملے میں امریکی فریق کی خیر سگالی نظر نہیں آتی اور جوہری معاہدے میں بھی یہی ہوا ہے۔

جے سی پی او اے پر 2015 میں ایران اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان اور جرمنی کے درمیان دستخط ہوئے تھے۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں اس معاہدے سے غیر قانونی طور پر دستبرداری اختیار کی تھی جب کہ موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن نے اشارہ دیا ہے کہ وہ معاہدے کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے تیار ہیں۔

روس، برطانیہ، جرمنی، چین، امریکا اور فرانس اپریل 2021 سے ایران کے ساتھ معاہدے کی بحالی کے لیے بات چیت کر رہے ہیں۔

جے سی پی او اے کو بچانے کے لیے بات چیت اپریل 2021 میں آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں شروع ہوئی تھی، جس کا مقصد اس معاہدے میں دوبارہ شامل ہونے اور ایران مخالف پابندیوں کو ہٹانے میں واشنگٹن کی سنجیدگی کا جائزہ لینا تھا۔

گزشتہ امریکی انتظامیہ کی جانب سے اسلامی جمہوریہ پر عائد تمام پابندیوں کو نہ ہٹانے کے اپنے سخت مؤقف پر واشنگٹن کے اصرار کی وجہ سے یہ مذاکرات اگست سے تعطل کا شکار ہیں۔

ایران کا موقف ہے کہ امریکی فریق کے لیے کچھ ضمانتیں پیش کرنا ضروری ہے کہ وہ کسی بھی معاہدے پر قائم رہے گا اور خلاف ورزی کا مرتکب نہیں ہوگا۔