وزارت خارجہ کے ترجمان نے گزشتہ روز لندن میں ایرانی سفارتخانے پر حملے کے رد عمل میں کہا کہ یہ کاروائی ایک پست عمل ہے اور اگر برطانیہ سیکورٹی فراہم نہیں کر سکتا تو اسے ایران کو آگاہ کرنا چاہیے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے آج (پیر) پریس بریفنگ میں کہا کہ ایران مذاکرات کے راستے پر گامزن رہے گا تا کہ ایک پائیدار اور ایسا معاہدہ ممکن ہوسکے جو اسلامی جمہوریہ کے بنیادی مفادات پر مشتمل ہو۔

ایران میں حالیہ بدامنی اور ڈنمارک میں ایرانی سفارت خانے پر حملے کے حوالے سے یورپی ممالک کے غیر روایتی موقف کے بارے میں کنعانی نے کہا کہ بدقسمتی سے ہم انسانی حقوق کے معاملے میں ان ممالک کے دوہرے رویے کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ یہ بہت دلچسپ ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں تشدد کی مخالفت کی بات کرتے ہیں اور ساتھ ہی ایرانی حکومت کو مشورہ دیتے ہیں کہ تحمل سے کام لے اور عوامی سلامتی کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں سے پرہیز کرے۔

 انہوں نے مزید کہا کہ ایران اپنے شہریوں کی سلامتی کا محافظ ہونے کے ناطے بلووں اور افراتفری کے سامنے خاموش نہیں رہ سکتا۔ احتجاج اور بلوے دو مختلف چیزیں ہیں اور ان کے نتائج مختلف ہوتے ہیں۔

انہوں نے یورپی ممالک کے رویے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کچھ ممالک ان گروہوں کو کام کی اجازت دیتے ہیں جن کے ہاتھ دہشت گردی سے رنگے ہوئے ہیں اور یہی گروہ ایرانی سفارت خانوں اور سفارت کاروں پر حملوں میں ملوث ہیں۔ ان کا عمل اور گفتار ایک جیسے نہیں ہیں۔ ان ملکوں کو چاہئے کہ منافقت اور دو روئی کو ایک طرف رکھ کر اپنی قانونی ذمہ داریاں پوری کریں اور ہمارے سفارت کاروں کی حفاظت کو یقینی بنائیں اور جن اصولوں کا ہمیں مشورہ دیتے ہیں، اپنے شہریوں کے حوالے سے بھی ان پر کاربند رہیں اور دوسرے ملکوں کے شہریوں کے حوالے سے بھی۔

انہوں نے شمالی عراق میں دہشت گرد گروہوں کے ٹھکانے تباہ کرنے کے بارے میں کہا کہ ایران کی طرف سے کیا گیا اقدام اس سے پہلے ہونے والے سرکاری اور شفاف اقدامات کی بنیاد پر تھا۔ جیسا کہ ہم نے باضابطہ طور پر اعلان کیا ہے، عراقی کردستان میں مسلح اور علیحدگی پسند گروہوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے میں ایران کی کارروائی ان تمام سرکاری اقدامات کا نتیجہ تھی جو ایران نے پیشگی اٹھائے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایران کا اقدام بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی بنیاد پر قانونی تھا اور اس طرح کے اقدام کو بین الاقوامی طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔

ناصر کنعانی نے زور دے کر کہا کہ ایران اپنی سلامتی اور اپنی سرحدوں اور اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے اور کسی بھی غیر قانونی اقدام سے نمٹنے کے لیے اپنی تیاری کو برقرار رکھے ہوئے ہے اور عراقی حکومت کے اقدامات کا انتظار کر رہا ہے کہ اپنی ذمہ داریوں پر عمل کرے اور دونوں ملکوں کی سرحدوں پر سیکیورٹی کو یقینی بنائے۔

انہوں نے ایران کے حالیہ داخلی واقعات میں بعض غیر ملکی شہریوں کے ملوث ہونے کے بارے میں کہا کہ تحقیقات جاری ہیں۔ ان کے سفارتخانوں کو اطلاع دے دی گئی ہے۔ ایران کا سفر کرنے والے غیر ملکی شہریوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ قوانین کا احترام کریں۔

انہوں نے مزید کہا کہ کچھ ملکوں کی جانب سے ایران کے کسی اندرونی معاملے کو بہانہ بنا کر خود کو ہمارے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا حق دینا مسترد اور ناقابل قبول ہے۔ بعض وزرائے خارجہ کے بیانات کے حوالے سے یہ دلچسپ بات ہے کہ وہ ممالک ایران میں خواتین کے حقوق اور انسانی حقوق کے حوالے سے اظہار نظر کر رہے ہیں جن میں دور کی بات نہیں بلکہ ان کی معاصر تاریخ اور حالیہ مہینوں اور سالوں میں ہمیں ان کے انسانی حقوق کے رویوں میں نفرت انگیز صفحات نظر آتے ہیں۔

وزارت خارجہ کے ترجمان نے گزشتہ روز لندن میں ایرانی سفارتخانے پر ہونے والے حملے کے بارے میں کہا کہ لندن میں جو کچھ ہوا اس طرح کی کارروائی ایک پست عمل ہے کہ کچھ لوگ سفارتی مشن پر حملہ کر کے اس ملک کے پرچم کو گرا دیں بذات خود ایک پست عمل ہے تاہم حکومتیں بین الاقوامی ضابطوں اور خاص طور پر سفارتی مقامات کی حفاظت کے لیے ویانا کنونشن کی پابند ہیں۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ ایسے ملک میں نہ صرف اس عرصے میں بلکہ گزشتہ برسوں کے طویل عرصے میں ایرانی سفارت خانے پر کئی بار حملے ہوئے ہیں۔

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ برطانوی سفیر کو متعدد بار طلب کیا گیا اور سفارتی مقامات کی سیکورٹی فراہم کرنے میں برطانوی حکومت کی ذمہ داری پر زور دیا گیا۔ اگر برطانیہ سیکورٹی فراہم نہیں کر سکتا تو اسے ایران کو آگاہ کرنا چاہیے۔ اگر تشدد سے نمٹنا ایک اصول ہے تو ان لوگوں سے نمٹیں جو تشدد چاہتے ہیں۔