علامہ امین شہیدی کا کہنا تھا کہ ہر سال پاکستانی زائرین کے ساتھ اس طرح کے مسائل کھڑے ہوتے ہیں، بنیادی طور پر ان مسائل کو حل کرنا پاکستان کی وزارت خارجہ کا کام ہے جبکہ اکابرین و اشرافیہ اپنی دنیا میں مگن ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان کی معروف سیاسی اور مذہبی شخصیت علامہ محمد امین شہیدی نے عراق کی جانب سے پاکستانی زائرین کو درپیش مشکلات کے بارے میں مہر نیوز سے گفتگو میں کہا کہ پاکستانی زائرین کے حوالے سے ہر سال اس طرح کے مسائل پیدا ہوتے ہیں، جن کی وجہ سے پچھلے کئی سالوں سے پاکستانی مظلوم عوام کے کروڑوں روپے ڈوب جاتے ہیں اور ایسے موقعوں پر بے چارے عوام دربدر کی ٹھوکریں کھاتے رہتے ہیں اور شدید ترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے حکومت اور خاص طور وزارت خارجہ کے رویے پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ پاکستانی شہریوں کے مسائل کے حل کی زمہ داری وزارت خارجہ پر عائد ہوتی ہے جبکہ عراقی باڈر پر موجود مسائل کے حوالے سے پاکستانی وزارت خارجہ کا شیعوں کے ساتھ کردار مکمل طور پر سوتیلی ماں والا رہا ہے، اس وقت ہزاروں زائرین دوسرے ملک میں پھنسے ہوئے ہیں لیکن ہماری وزارت خارجہ کو اس کی کوئی خبر ہے ہی نہیں اور اس حوالے سے اس نے نہ کوئی قدم اٹھایا ہے اور نہ کوئی رابطہ کیا ہے جبکہ یہ اس کے فرائض منصبی میں سے ہے۔

علامہ امین شہیدی نے مزید کہا کہ اس مسئلے کا حل وزارت خارجہ کے ذریعے ہی ممکن ہے کیونکہ دوسرے ممالک کو وزیر خارجہ ہی قائل کرنے کا پابند ہے تاہم جس ملک کے وزیر خارجہ کا یہ رویہ ہو توعراقی بھی اس ملک کے باسیوں کے ساتھ اس طرح کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ اس وقت دنیا کے دو ممالک کے شہری اس صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں، ایک پاکستان اور دوسرے افغانستان کے شہری۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ افغان حکومت کو کربلا کے زائرین سے کوئی دلچسپی نہیں ہے لہذا اس معاملے میں کوئی ادا نہیں کرسکتے اور نہ ہی اس کا ارادہ رکھتے ہیں جبکہ پاکستان کی صورتحال سب کے سامنے ہے جہاں ایک قوم کچھ لٹیروں کے رحم و کرم پر ہے۔ یہاں عام عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔

علامہ امین شہیدی نے قومی اور مذہبی تنظیموں کے کردار پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہماری تنظیمیں اپنے محدود دائروں میں قید ہیں جبکہ معمولی نوعیت کے مسائل میں کریڈٹ لینے کے لئے خبریں چھپوادیتی ہیں اور اپنی تشہیر کرتی ہیں لیکن اصل مسئلے کے حل کے لئے ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جاتا۔ 

انہوں نے حکومتی حکام، قومی و مذہبی جماعتوں کے کردار پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسی صورت حال میں قوم کو اپنے جائز حقوق حاصل کرنے کے لئے متحد ہونے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی مذہبی جماعتوں کے لئے بھی ایک مشترکہ موقف اپنانے کی ضرورت ہے۔ 

 علامہ امین شہید نے تجویز دی کہ ایک مشترکہ کمیٹی بنائی جانی چاہئے جو وزارت خارجہ اور اس کے بعد عراقی حکومت سے بات چیت کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکام، اشرافیہ اور اکابرین کی اس مسئلے سے لاتعلقی کا اصلی سبب یہ ہے کہ یہ مسائل عام عوام کے مسائل ہیں، خواص کے مسائل نہیں، اسی لئے حکومتی ادارے اور قومی شخصیات ان مسائل پر توجہ نہیں دیتیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک المیہ ہے اور اس المیے کے حل کے لئے اجتماعی سطح پر شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے جبکہ جب تک ہمارے اکابرین کوئی مشترکہ کمیٹی یا کونسل بنا کر اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش نہیں کریں گے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا اور آئندہ بھی یہی صورتحال رہے گی۔

لیبلز