مہر نیوز/4 اگست /2013ء: حسینیہ امام خمینی (رہ) میں ایک شاندار اور معنوی تقریب کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتویں صدر کے صدارتی عہدے کی تنفیذ کے حکم کے سلسلے میں تقریب منعقد ہوئی، جس میں رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے قومی رائے کی تنفیذ کرتے ہوئے حجۃ الاسلام والمسلمین جناب ڈاکٹر حسن روحانی کو اسلامی جمہوریہ ایران کا صدر مقرر کیا ۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق حسینیہ امام خمینی (رہ) میں ایک شاندار اور معنوی تقریب کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتویں صدر کے صدارتی عہدے کی تنفیذ کے حکم کے سلسلے میں تقریب منعقد ہوئی، جس میں رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے قومی رائے کی تنفیذ کرتے ہوئے حجۃ الاسلام والمسلمین جناب ڈاکٹر حسن روحانی کو اسلامی جمہوریہ ایران کا صدر مقرر کیا۔

جناب ڈاکٹر حسن روحانی کے تقرر کے حکم کو رہبر معظم انقلاب اسلامی کے دفتر کے انچارج حجۃ الاسلام والمسلمین جناب محمدی گلپائگانی نے پڑھ کر سنایا۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے حکم میں صدارتی انتخابات میں عوام کی وسیع اور بڑے پیمانے پر شرکت کو ایرانی قوم کے سیاسی بلوغ اور پختگی کا مظہر ، انقلاب اسلامی کے ساتھ وفاداری کا روشن پیغام ، اسلامی نظام پر اعتماد اور امید اور بہادر علماء پر اعتماد کا شاندارنمونہ قراردیتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم نے ان دشمنوں کو ٹھوس اور محکم جواب دیا جو ایرانی قوم کے حوصلوں کو پست کرنے کے بڑے پیمانے پرسیاسی اور تبلیغاتی کوشش کررہے تھے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی کا ڈاکٹر روحانی کی تنفیذ کے حکم کا متن حسب ذيل ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

خدا وند حکیم و قدیر کے شکر و سپاس اور پیغمبر اسلام(ص) اور ان کے اہلبیت (ع) پر درود و سلام کے ساتھ ملک میں انتظامی اور اجرائی امور کی خدمت کی سنگين ذمہ داری کے نئے دور کے آغاز پر ایرانی قوم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ایرانی قوم کی ہدایت اور انھیں سیاسی جہاد خلق کرنے کا عزم عطا کرنے پر اللہ تعالی کے کریمانہ الطاف کے سامنے خضوع و خشوع کے ساتھ اس کی بارگاہ میں سرتسلیم وسر نیاز خم کرتا ہوں۔ ایرانی قوم کو شوق و نشاط کے ساتھ مسلسل اور پیہم اسلامی جمہوری راستہ طے کرنے کا فخر حاصل ہے اور اس نے اس سرسبز، پر ثمر اورشاداب درخت کوہر دور میں مضبوط سے مضبوط بنانے کی کوشش کی ہے۔ اس مرتبہ بھی ایرانی قوم نے ہوشیاری ، آگاہی اور بصیرت کے ساتھ میدان کو اپنے حضور و قدوم سے منورو مزین کیا اوران دشمنوں کو ٹھوس اور مضبوط و محکم جواب دیا جو ایرانی قوم کے حوصلوں کو پست کرنے اوران کے اندر مایوسی پھیلانے کی تلاش و کوشش کررہے تھے۔ عوام نے انتخابات میں وسیع پیمانے پر شرکت کرکے ایسے شائستہ شخص کو منتخب کیا ہے جو تین دہائیوں سے زیادہ عرصہ سے مختلف میدانوں میں اسلامی نظام ،عوام اور ملک کی خدمت کرنے میں آزمودہ اور تجربہ کار ہیں اور انھوں نے طاغوتی حکومت کے ساتھ مزاحمتی دور سے لیکر انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد تک تین عشروں سے زیادہ عرصہ تک انقلاب اسلامی کے دشمنوں سے بھر پورمقابلہ کیا ہے اور ان کے انتخاب میں سب کے لئے واضح پیغامات ہیں؛ انقلاب اسلامی کے ساتھ وفاداری کا پیغام؛ اسلامی نظام پر اعتماد اور امید کا پیغام؛ شجاع اور بہادر علماء پر اعتماد کا پیغام؛ اور ایسے خدمتگزاروں پر اعتماد کا پیغام جو اپنی ہمت اور خلاقیت کے ساتھ کامیابیوں میں اضافہ اور مشکلات کو کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

ایرانی قوم نے انتخابات میں شوق و نشاط کے ساتھ ہمیشہ اور موجودہ دور میں جو کامیابی حاصل کی ہے وہ صرف ملک کے اجرائی اور انتظامی امور میں خلاقیت اور نقش آفرینی ہی نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ ان کےسیاسی بلوغ اور پختگی کا مظہر ہے جوقوم کےاقتدار کو حکمت اور عقل کے ساتھ منسلک کرنے اورعالمی سطح پر ایرانی قوم کی عزت و عظمت اور سربلندی کی علامت کا مظہر ہے۔جو لوگ عوام کے قابل قدر و قابل فخرکارنامہ  اورقوم کی عظيم حرکت کو وسوسوں ، سازشوں اور پروپیگنڈوں کے ذریعہ نفی اور بیلٹ بکسوں اور قانونی طریقوں کو نظر انداز کرنا چاہتے ہیں ان کو ہمیشہ قوم کے پختہ عزم و ارادے کا سامنا رہا ہے۔

اب جبکہ ایرانی عوام کی واضح اکثریت نے مختلف سیاسی، ثقافتی اور جہادی میدانوں میں خدمات انجام دینے والےایک آزمودہ ،تجربہ کار اور ماہر دانشور کو ملک کے اجرائی اور انتظامی امور کے لئے منتخب کیا ہے میں بھی عوام کی پیروی میں منتخب صدر کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے قومی آراء کو تنفیذ اور جناب حجۃ الاسلام ڈاکٹر حسن روحانی کو صدارتی عہدے پر منصوب کرتا ہوں اور اس  سنگین ذمہ داری کو حسن و خوبی کے ساتھ انجام دینے میں اللہ تعالی کی بارگاہ سے ان کے لئے توفیقات طلب کرتا ہوں۔ واضح ہے کہ عوامی رائے اور تنفیذ اس وقت تک ہے جب تک سامراجی اور منہ زور طاقتوں کے مقابلے میں وہ جس صراط مستقیم پر آج تک گامزن رہے ہیں اسی پر باقی رہیں یعنی اسلامی نظام کے اصولوں پر گامزن اور ایرانی قوم کے مفادات اور حقوق کی حفاظت میں پائدار رہیں کہ انشاء اللہ تعالی، خداوند متعال کی مدد سے ایسا ہی ہوگا۔

صدر محترم کو اللہ تعالی سے مدد طلب کرنے، خداوند متعال و قادر سے توسل ، خشوع پیدا کرنے، زہد و تقوی اور ملک میں موجود عظیم ظرفیتوں اور تجربات سے بھر پور استفادہ کرنے کی سفارش کرتا ہوں اوران کے لئے اللہ تعالی کی ہدایت اورسب کی حمایت کی تمنا کرتا ہوں۔

والسلام علی جمیع عبدالله الصالحین
سیدعلی خامنه ای
12/مرداد/1392

منتخب صدر جناب ڈاکٹرحسن روحانی کے صدارتی عہدے کے تقرر اورتنفیذ کے حکم کے بعد رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں ملک میں انتظامی اور اجرائی امور کے آرام و سکون ، صفا و صمیمیت اور سنجیدگي کے ساتھ منتقل ہونے کو اسلامی جمہوریہ ایران میں ایک اہم اور گرانقدر واقعہ قراردیا کہ جس کی جڑیں دینی عوامی حکومت کے اندر قائم ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پہلوی ڈکٹیٹر حکومت اور اس سے پہلے عوامی حکومت کے فقدان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ایرانی قوم نے عوامی حکومت کا ذائقہ اور مزہ چکھا اور اسلامی دائرے میں عوام نے اپنے امور اپنے ہاتھ میں لے لئے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کے تمام اہم وحساس مسائل اور ذمہ داریوں میں عوام کے نقش و کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: حالیہ 34 برسوں میں تقریبا ہر سال ایران میں انتخابات منعقد ہوئے ہیں اور عوام نے ملک کے اجرائی و انتظامی امور میں اہم فیصلے اور بلند مدت منصوبوں پر قریب سے نگرانی کا کام انجام دیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دینی عوامی حکومت کے بارے میں مزید تشریح کرتے ہوئےفرمایا: اس عوامی نظام میں عوام اور حکام کے درمیان رابطہ قانونی دائروں تک ہی محدود نہیں ہوتا بلکہ یہ رابطہ مضبوط و مستحکم ، ایمانی اور عاطفی رشتوں پر استوار ہوتا ہے جس کا سرچمشہ عوام کےدینی اعتقادات اور اسلامی و انقلابی اصول ہیں  اور حکام کی اس طرف راہنمائی اور ہدایت بھی ہوتی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے قوم کے اسلامی اصولوں اور دینی اعتقادات کے نمونہ کے طور پریوم القدس کی ریلیوں میں عوام کی بھر پوراور شاندار شرکت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس گرمی کے موسم میں روزہ کی حالت میں دینی ایمان، انقلابی اصولوں کے ساتھ وفاداری کے علاوہ کونسا جذبہ ہے جو عوام کودشمنوں کا مقابلہ کرنے اور مسئلہ فلسطین کے بارے میں مؤقف واضح کرنے کے لئے سڑکوں پر لے آتا ہے؟

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی طرح ہر سال 22 بہمن کی ریلیوں میں عوام کی بے مثال شرکت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: انتخابات میں شرکت کے سلسلے میں بھی یہی جذبہ کارفرما ہے جو قوم کو شوق و نشاط کے ساتھ  سیاسی اور سماجی میدان میں کھینچ کر لے آتا ہے اور رزم و جہاد خلق ہوتا ہے اور تمام حکام کو ہمیشہ اس حقیقت کو یاد رکھنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حضرت امام (رہ) نے اس راہ کو ہمارے عوام کے سامنے باز کیا اورایرانی قوم بھی آج تک اسی راہ پر استقامت اور پائداری کے ساتھ گامزن ہے اور آئندہ بھی اسی طرح اس راہ پر گامزن رہےگی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے دوسرے حصہ میں  اسلامی نظام میں ذمہ داری قبول کرنے کو سنگین تلاش و کوشش، پیہم و مسلسل جد وجہد ، عوام کی خدمت اور زحمت قبول کرنے کے معنی میں قرار دیتے ہوئے فرمایا: خوش قسمتی سے حکام کی  ماضی میں کی جانے والی کوششوں کے نتیجے میں ملک میں عظیم ظرفیتیں موجود ہیں اور ان تمام ظرفیتوں سے بھر پوراستفادہ کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عوام اور حکام کو صبر و شکیبائی کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ ملک کے امور سرعت کے ساتھ آگے بڑھیں ، لیکن اس بات پر توجہ رکھنی چاہیے کہ بلند مدت منصوبوں کے لئے وقت درکار ہے لہذا کم سے کم مدت میں اقتصادی مشکلات اور دیگر مشکلات کو برطرف کرنے کے سلسلے میں عوام کےاندر بےجا توقع پیدا نہیں کرنی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے منتخب صدر اور پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے والی ان کی ممکنہ کابینہ کو مسلسل تلاش و کوشش کرنے اور جلد بازی سے پرہیز کرنے کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا: ملک میں موجود مختلف بشارتوں پر اعتماد اور ملک میں موجود تمام ظرفیتوں سے استفادہ کرتے ہوئے مضبوط، مطمئن اور استوار قدم اٹھانے چاہییں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایرانی قوم کے ساتھ  امریکہ اور دشمن محاذ کی معاندانہ رفتار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: جیسا کے صدرمحترم نے دشمن کی طرف سے اقتصادی پابندیوں اوردشمن کی معاندانہ رفتار اور کوششوں کی طرف اشارہ کیا، دشمن کی اس رفتار سے عوام کے لئے بعض مشکلات پیدا ہوتی ہیں لیکن اس  سے حکام اور عوام کوگرانقدر سبق بھی حاصل ہوتے ہیں۔

رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے ملک کے اندرونی اقتدار اور اقتصادی استحکام کے سلسلے میں تلاش و کوشش کو دشمنوں کے اقتصادی دباؤ کا مقابلہ کرنے کے لئے بہت ہی اہم قراردیتے ہوئےفرمایا: ہمیں اندرونی طور پر خود کو مقتدر اور مضبوط بنانے کی کوشش کرنی چاہیے اور خارجی سطح پر وابستگی کو کم کرنا چاہیے کیونکہ جو لوگ دوسرے ممالک سے دل وابستہ کرتے ہیں وہ دباؤ کا سامنا کرتے وقت ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اقتصادی مسائل کے حل اور علمی و سائنسی ترقیات کو جاری رکھنے کے لئے اندرونی استحکام کو پہلے درجے کی اہمیت کا حامل قراردیتے ہوئے فرمایا: ان دو مسئلوں کا سنجیدگی کے ساتھ پیچھا کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بین الاقوامی روابط اور سیاسی مسائل کے بارے میں ڈاکٹر روحانی کے حکمت آمیز نظریہ کی تائيد کرتے ہوئے فرمایا: سیاسی مسائل بھی مہم ہیں اور تمام امور حکمت، تدبیر اور عقلمندی کے ساتھ انجام پانے چاہییں البتہ ہمارے کچھ ایسے دشمن بھی ہیں جو عقل اور منطق کی زبان نہیں سجھتے ہیں بہر حال ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم مسائل کو حکمت ، تدبیر، استحکام اور اسلامی نظام کے اہداف کے پیش نظر آگے بڑھائیں۔

رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے قرآنی آیات کے حوالے سے راہ وسط کو راہ اسلام قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلام نے کامیابی اور ذمہ داری کا راستہ مشخص کررکھا ہے اور ہم سب کو اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کرنے اورذمہ داری انجام دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔  

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: بعض دشمنوں نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے پہلے  ہی دن، اسلامی نظام اور انقلاب اسلامی کو محو و نابود کرنے کا آشکارا اعلان کیا لیکن 34 سال گزرنے کے بعد وہ اسلامی جمہوریہ ایران کو نہ صرف متزلزل نہیں کرسکے بلکہ اسلامی جمہوریہ ایران کی ترقی اور پیشرفت کو روکنے میں  بھی ناکام رہے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اللہ تعالی کے فضل و کرم ، عوام کی میدان میں موجودگی اور حکام کی کوششوں کو دشمنوں کی شکست و ناکامی اور ملک میں جاری قابل تعریف ترقیات کا باعث قراردیتے ہوئے فرمایا: یہ تمام کامیابیاں اسلام اور اسلامی اقدار پر پابندی اور ان واضح و روشن خطوط و  ہدایات عمل کی مرہون منت ہیں جو حضرت امام خمینی (رہ) نے ہمارے لئے یادگار کے طور پر چھوڑی ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے قوہ مقننہ اور عدلیہ کو مشکلات حل کرنے کے سلسلے میں قوہ مجریہ کا بھر پور تعاون کرنے کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا: ہمیں ملک کے فراواں وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے کارہائے نمایاں انجام دینے چاہییں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب کے دوسرے حصہ میں بعض علاقائی ممالک میں کشیدہ حالات اور عالم اسلام کو در پیش اقتصادی اور سیاسی مشکلات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: گذشتہ 65 برسوں سے علاقہ میں  غاصب اور ظالم اسرائیلی حکومت  کی موجودگی عالم اسلام کے لئے بہت بڑی مشکل ہے اور بعض عالمی سامراجی طاقتیں غاصب صہیونی حکومت کی حمایت اب بھی جاری رکھے ہوئے ہیں اور عالمی و علاقائی صورتحال کے پیش نظر ایران اپنے واضح مؤقف کے ساتھ اپنی پیشرفت کو جاری رکھے ہوئے ہے۔

رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے منتخب صدر کو آزمودہ ، تجربہ کار اور اسلامی نظام کے پرانے اور قدیمی خدمتگزاروں میں قراردیتے ہوئے فرمایا: جناب روحانی نے دفاع مقدس کے دوران، پارلیمنٹ میں اور اعلی قومی سلامتی کونسل میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں اور آج عوام نے ان کے دوش پر نئی ذمہ داری عائد کی ہے  اللہ تعالی کی مدد سے اس منصب پر بھی وہ شاندار خدمات انجام دیں گے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تمام سیاسی گروہوں اور با نفوذ افراد کو جناب روحانی اور ان کی حکومت کی بھر پور مدد کرنے کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا: امید ہے کہ صدر اپنی سنگین ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی انجام دیں گے اور عوام کی توقعات کو بہترین شکل میں پورا کریں گے۔

 رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے جناب احمدی نژاد اور ان کی حکومت کی نمایاں خدمات اورانجام پانے والے اہم کاموں پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا: بہت سے دوسرے کام ابھی موجود ہیں جو قوم اور حکام کی ہمت سے انجام پذیر ہوں گے اور ایران کی پیشرفت اور ترقی کا سلسلہ جاری و ساری رہےگا۔

اس تقریب سے ڈاکٹر حسن روحانی نے خطاب کرتے ہوئے  ایرانی قوم کی رائے اعتماد اور رہبر معظم انقلاب اسلامی کی طرف سے صدارتی تنفیذ کے حکمنامہ پر دستخط کو اپنے لئے با‏عث فخر قراردیا اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں شکر و سپاس ادا کرتے ہوئے کہا: ماہ خرداد 92 ہجری شمسی میں ہونے والے صدارتی انتخابات صاف و شفاف اور آرام و سکون کی فضا میں منعقد ہوئے اور ایرانی قوم نے انتخابات میں بھر پورانداز میں شرکت کی۔

صدر حسن روحانی نےبد نیت دشمنوں کی جانب سے ایرانی قوم اور حکام کے درمیان اختلاف ایجاد کرنے کی مذموم کوشش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: دشمنوں نے ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کرکے اسے داخلی مشکلات سے دوچار کردینے کی بہت تلاش و کوشش کی لیکن عوام نے شوق و نشاط کے ساتھ انتخابات میں وسیع اور بڑے پیمانے پر شرکت کرکے بے مثال سیاسی رزم و جہاد کا مظاہرہ کیا اسلامی نظام کے تمام ہمدردوں نے اس سلسلے میں بھر پورکردار ادا کیا اور یہ اقدام ، قوم اور حاکمیت کے سیاسی بلوغ اوراعتماد کا آئینہ دار ہے۔

صدر روحانی نے 24 خرداد کو ہونے والے انتخابات کے مختلف پہلوؤں کی تشریح کرتے ہوئے کہا: ایرانی عوام نے ایسے فرد کا انتخاب کیا جو کئی سال سے اسلامی نظام کے مختلف عہدوں پر خدمات انجام دے رہا ہے جو ایرانی قوم کی عزت و عظمت پسندی  اور حکومت و عوام کے درمیان اتحاد، عوامی اسلامی جمہوریت اور انقلاب اسلامی کی پائداری اور پختگی کا شاندار مظہرہے۔  

جناب روحانی نے انتخابات میں عوام کی بھر پور شرکت، صدارتی انتخابات کے صاف و شفاف منعقد ہونے، صدارتی امیدواروں کے نعروں اور سیاسی پالیسیوں ، ٹی وی مناظروں کو اسلامی جمہوری نظام میں دینی عوامی حکومت کے کمال کی علامت قراردیتے ہوئے کہا: ان انتخابات سے جو نشاط اور امید پیدا ہوئی اس نے ایران کے لئے ایک نیا سماجی سرمایہ فراہم کیا جس کی بدولت دشمن کی دھمکیوں کے خطرات دور ہونے کے علاوہ ملک کی ہمہ گیر پیشرفت اور ترقی کے نئے مواقع فراہم ہوئے ہیں۔

صدرحسن روحانی نے 24 خرداد کے انتخابات میں عظیم اعتماد اور امید پیدا کرنے کے سلسلے میں  رہبر معظم انقلاب اسلامی ، مراجع عظام، علماء، ممتاز شخصیات، مختلف سیاسی احزاب و گروہوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: میری بنیادی ذمہ داری اس عشق، امید اور اعتماد کی حفاظت کرنا ہے۔

صدر روحانی نے عوام کو انتخابات میں سیاسی جہاد خلق کرنے کا مظہر قراردیا اور تبدیلی اور تحول کو عوامی مطالبات کا حصہ قراردیتے ہوئے کہا:  عوام کا کم سے کم مطالبہ یہ ہے کہ  تمام شعبوں میں آرام و سکون اور ثبات برقرار ہوجائے اور معاشی اور اقتصادی مشکلات برطرف ہوجائیں۔

 صدر روحانی نے عوام سے کئے گئے عہد و پیمان پر حکومت کی پائبندی اور قوم کے ساتھ سچائی اور وفاداری کو حکومت کے لئے لازمی اور ضروری قراردیتے ہوئے کہا: حکومت ، اسلامی اخلاق کوبا شکوہ  بنانے اور اسلام کے نورانی احکام کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں وفادار رہےگی۔

جناب روحانی نے حکومت کے وسائل اور توانائی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: عوام کے تمام مطالبات اور توقعات کو ایک بار پورا کرنا ممکن نہیں ہے لیکن حکومت مسائل کو صداقت کے ساتھ عوام کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کرےگی اورمشکلات کو برطرف کرنے کے سلسلے میں  دیگر قوا سے بھی مدد طلب کرےگی۔

صدر روحانی نے امید و نشاط کی حفاظت، اعتدال و میانہ روی ، گفتگو اور قانون پر عمل کو ممکن قراردیتے ہوئے کہا: اعتدال اور میانہ روی کا مطلب اصول سے روگردانی اور انحراف نہیں ہے بلکہ اعتدال کا مطلب افراط و تفریط سے دوری اور معاشرے میں برداشت اور صبر و تحمل کی فضا قائم کرنا ہے۔

جناب روحانی نے اعتدال کے ذریعہ دینی عوامی حکومت کے استمرار کو ممکن قراردیتے ہوئے کہا: میں حکومت کے اقدامات اور منصوبوں کو اعتدال کے محور پر آگے بڑھانے کو اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں۔

صدر حسن روحانی نے اقتصادی مسائل اور سماجی مشکلات دور کرنے کو اپنی حکومت کے اصلی منصوبوں میں شمار کرتے ہوئے کہا: حکومت عالمی سطح پر بھی قومی مفادات کی حفاظت اور ظالمانہ پابندیوں کو ختم کرانے کے سلسلے میں بنیادی قدم اٹھائے گی۔

صدر روحانی نے کہا : رہبر معظم انقلاب اسلامی کی تدبیر اور عوام کی بھر پور شرکت سے اگر سیاسی رزم و جہاد محقق ہوسکتا ہے تو اقتصادی رزم و جہاد کا محقق ہونا بھی ممکن ہوجائے گا۔

صدر روحانی نے گذشتہ حکومتوں بالخصوص سابق صدر احمدی نژاد کی حکومت کی خدمات کی تعریف کرتے ہوئے کہا: میں عوام کی رائے اور تنفیذ کے حکم کی سنگینی کو اپنے دوش پر محسوس کرتا ہوں اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں پناہ چاہتا ہوں  اور اس سنگین ذمہ داری کو انجام دینے کے سلسلے میں اللہ تعالی سے  مدد طلب کرتا ہوں۔

اس تقریب میں وزیر داخلہ نے بھی گیارہویں صدارتی انتخابات اور شہری اور دیہاتی کونسلوں کے چوتھے انتخابات کے بارے میں رپورٹ پیش کی۔

جناب مصطفی نجار نے " قانون پر عمل" ، " عوامی رائے کے سلسلے میں امانتداری" ، " امیدواروں کی  تبلیغات کے سلسلے میں مساوی اور منصفانہ شرائط کی فراہمی" ، " عوام کی بھر پور شرکت کی راہیں ہموار کرنے" کو انتخابات منعقد کرنے والے اداروں کے چار کلی اصول اور خطوط قراردیا۔

وزیر داخلہ نے صدارتی انتخابات کے ساتھ شہری اور دیہاتی کونسلوں کے انتخابات کی طرف بھی اشارہ کیا اورکہا کہ  50 ملین 483 ہزار اور 192 افراد ووٹ کا استعمال کرنے کے حقدار تھے جن میں سے 36 ملین ، 938 ہزآر اور 651 افراد نے اپنے ووٹ کا استعمال کیا ، وزیر داخلہ نے انتخابات میں 73 فیصد عوامی شراکت کی خبر دیتے ہوئے کہا : ڈاکٹر حسن روحانی 18 ملین 692 ہزار اور 500 ووٹ کی اکثریت حاصل کرکے اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر منتخب ہوگئے۔

وزیر داخلہ نے انتخابات منعقد کرنے اور عوام کی بھر پور شرکت کے سلسلے میں رہبر معظم انقلاب اسلامی کی حکیمانہ تدبیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: 24 خرداد سن 92 ہجری شمسی کے انتخابات ماضی کے تمام انتخابات کی طرح قانون کے مطابق اور صاف و شفاف منعقد ہوئے اوران انتخابات نے ان افراد کے غلط دعوؤں پر خط بطلان کھینچ دیا جنھوں نے سن 1388 ہجری شمسی کے انتخابات میں قانون سے عبور کرکے عوام کے کام کو تلخ کردیاتھا۔