مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، یوم "نکبت" کو جہاں صہیونی اپنی ناجائز حکومت کے قیام کے 76 ویں برس کے طور پر مناتے ہیں، وہیں اسرائیلی تجزیہ نگار اور ماہرین اس رجیم کے مستقبل کے بارے میں سوالات اٹھا رہے ہیں۔ خاص طور پر حالیہ جنگی صورت حال اور داخلی اور بیرونی چیلنجوں کے پیش نظر اسرائیل کا وجود خطرے سے دوچار ہے۔
نیتن یاہو کی پے در پے ناکامیوں نے اسرائیل کو شکست کی دلدل میں دھکیل دیا
اسی تناظر میں عبرانی اخبار Ha'aretz نے "سات ماہ کی جنگ کے بعد، اسرائیل ٹوٹ رہا ہے" کے عنوان سے اپنی جائزہ رپورٹ میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ "کیا اسرائیل اپنی 100ویں سالگرہ منا سکتا ہے؟"
اس رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے تقریباً 7 سال قبل اسرائیل کے مستقبل کے بارے میں سختی سے خبردار کرتے ہوئے اس وقت کہا تھا کہ اسرائیل کے وجود کی بقاء کوئی یقینی ضمانت نہیں ہے۔ کیونکہ تمام پچھلی یہودی حکومتیں 80 سال سے زیادہ نہیں چلیں لیکن ہمیں اس خوف ناک رجحان پر قابو پانا چاہیے۔ نیتن یاہو نے اسرائیلیوں سے وعدہ کیا کہ وہ اسرائیل کو اس کی 100 ویں سالگرہ تک پہنچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔
مذکورہ صہیونی اخبار نے اس بات پر زور دیا کہ نیتن یاہو نے ہمیشہ کی طرح اپنے وعدے کے برخلاف کام کیا اور اسرائیل کی حمایت کرنے کے بجائے اسے کمزور اور تباہ کرنے کی کوشش کی اور اس حد تک کمزور کیا کہ آج پہلی بار اسرائیل کے وجود پر سوالیہ نشان اٹھ گیا ہے۔ نیتن یاہو جب سے اقتدار میں واپس آئے ہیں، انہوں نے بے شمار حماقتیں کی ہیں، جن کے نتائج بہت واضح ہیں۔
اس اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا ہے: 132 اسرائیلی قیدی حماس کی سرنگوں میں رہ گئے ہیں اور غزہ اور اسرائیل کے شمال (مقبوضہ فلسطین) کے آس پاس کی بستیاں ویران پڑی ہیں اور یہ معلوم نہیں ہے کہ کیا اسرائیلی ان میں دوبارہ آباد ہوں گے بھی یا نہیں؟ اس کے علاوہ بندرگاہ ایلات کا اہم شپنگ روٹ بند ہے، بین الاقوامی ایئر لائنز نے بین گورین ایئرپورٹ کے لیے پروازیں معطل کر دی ہیں، اسرائیل کی کریڈٹ ریٹنگ نیچے آگئی ہے اور بجٹ خسارہ اور افراط زر بلندیوں چھونے لگا ہے۔
روزنامہ ہاریٹز نے اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے مقبوضہ علاقوں میں صیہونی رجیم کے خلاف "وعدہ صادق" کے عنوان سے کی جانے والی انتقامی کارروائیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا: ایران آج اپنے آپ کو کافی محفوظ اور طاقتور محسوس کر رہا ہے کہ وہ اسرائیل پر سینکڑوں میزائل اور ڈرون گرا سکتا ہے جب کہ اسرائیل کی کمزوری عیاں ہوگئی کہ وہ تنہا اپنا دفاع نہیں کر سکتا۔
اس عبرانی اخبار نے عام شہریوں کے خلاف جرائم کے انکشاف کے بعد عالمی سطح پر صیہونی حکومت کی تنہائی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے مزید لکھا: آج نیتن یاہو ان لوگوں میں سے ایک ہے جن کے خلاف جلد ہی عالمی عدالت انصاف کی جانب سے وارنٹ گرفتاری جاری کئے جائیں گے۔ نیز اسرائیل اور امریکہ کے تعلقات عوامی سطح پر کشیدہ ہو گئے ہیں اور امریکی صدر جو بائیڈن اسرائیلی فوج کو ہتھیار بھیجنا بند کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
صہیونی اسرائیل کے مستقبل سے ناامید ہیں
المیادین ٹی وی چینل کے مطابق، Haaretz اخبار کے سیاسی تجزیہ نگار ارس لال نے اس بارے میں لکھا: حماس ابھی تک زندہ اور سانس لے رہی ہے، اور اسرائیلی قیدیوں کو یکے بعد دیگرے قتل کیا جا رہا ہے، جب کہ اسرائیلی حکام اپنے فرائض ادا نہیں کر رہے۔ اسرائیلی ایک دن واضح طور اپنی شکست کی رسوائی دیکھ لیں گے جب کہ اسرائیلی حکام، بشمول یواف گیلنٹ اور نیتن یاہو اور جنگی کابینہ کے دیگر ارکان کی تمام تر باتیں، بیان بازی سے سوا کچھ نہیں۔
انہوں نے مزید لکھا: 7 ماہ کی جنگ کے بعد اسرائیل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور تیزی سے تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ کیونکہ اسرائیل کی معیشت کے مستقبل کی کوئی ضمانت نہیں ہے اور وہ عالمی تنہائی کا شکار ہو کر مغربی ممالک کی حمایت کھو رہا ہے اور ایک نہ ختم ہونے والے جنگ میں پھنس کر رہ گیا ہے۔
دوسری جانب صہیونی سیاست اور معاشرے کے بارے میں ڈیٹا اکٹھا کرنے والی عبرانی ویب سائٹ "مداد" نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں اسرائیل کے مستقبل کے بارے میں صیہونی آباد کاروں میں امید کی سطح میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ وہ اسرائیلی جو اس رجیم کے مستقبل کے بارے میں پر امید تھے 48 فیصد سے کم ہو کر 37 فیصد رہ گئے ہیں جب کہ 30 فیصد اسرائیل کے مستقبل کے بارے میں مکمل طور پر مایوسی کا شکار ہیں۔
ان اعداد و شمار کی بنیاد پر اسرائیلی ماہرین اور تجزیہ کار اس بات پر زور دیتے ہیں کہ تل ابیب کی جنگ جیتنے کی صلاحیت پر اسرائیلیوں کے اعتماد میں کمی آئی ہے۔ اگرچہ صہیونیوں کا خیال ہے کہ یہ ایک اہم اور وجودی جنگ ہے، لیکن انہیں اس میں اسرائیل کی جیت کی امید بالکل بھی نہیں ہے۔
صہیونی ماہرین کا خیال ہے کہ اسرائیل کو مسلسل بحران کا سامنا ہے اور جو چیز سب سے زیادہ تشویشناک ہے وہ مستقبل کے بارے میں اسرائیلیوں کی شدید مایوسی ہے اور یہ مسئلہ الٹی ہجرت کے عمل میں تیزی کا باعث بنا ہے۔ اس کے علاوہ جب اسرائیلی فوجیوں میں اسرائیل کے خوف ناک انجام اور تاریک مستقبل اچھا سوال اٹھتا ہے تو وہ جنگ میں حصہ لینے کا حوصلہ نہیں کھو بیٹھتے ہیں۔
صہیونیوں کا المناک ترین سانحہ
صہیونی اخبار "ذامارکر" نے اس حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ اسرائیل کا 76واں یوم آزادی اس کے قیام کے بعد سب سے افسوسناک اور خوف ناک تعطیل ہے جس میں صیہونیوں کو یہ سوال دامن گیر ہے کہ اسرائیل کیا اپنی 100 ویں سالگرہ دیکھ سکتا ہے یا نہیں؟
اس سلسلے میں دو صہیونی ماہرین "یوجین کینڈل" اور "رون تسور" نے اسرائیل کے لیے ایک نئے وژن کا خاکہ تیار کرنے کے مقصد سے ایک دستاویز تیار کی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کو اپنی 100ویں سالگرہ بھی نصیب نہیں ہوگی۔
اس دستاویز میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل ایک اداس اور خوف ناک مستقبل کا انتظار کر رہا ہے۔ کیونکہ زیادہ تر امکانات ظاہر کرتے ہیں کہ اسرائیل آنے والی دہائیوں تک ایک یہودی ریاست کے طور پر زندہ نہیں رہے گا۔ اسرائیل آج ایک حقیقی خطرے میں ہے، چونکہ موجودہ اسرائیلی سیاسی فریم ورک کے اندر موجودہ خانہ جنگی کو روکنا ممکن نہیں ہے۔
مذکورہ صہیونی ماہرین نے مزید کہا: غزہ جنگ کے خاتمے کے بعد، یہ توقع کی جاتی ہے کہ اسرائیلیوں کے درمیان اندرونی کشمکش میں شدت آئے گی، یہ سب اسرائیلی معاشرے کو تحلیل کرنے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔
اسرائیل کو درپیش موجودہ چیلنجز
اس دستاویز میں اسرائیل کے لیے تین وجودی چیلنجوں کا ذکر کیا گیا ہے:
1: اقتصادی چیلنج؛ اسرائیل کی معیشت کا بوجھ ایک مخصوص گروہ پر پڑتا ہے، اور دوسرا گروہ (انتہائی حریدی کی طرف اشارہ) صرف صارفین ہیں۔
2: متضاد اقدار کا چیلنج: اسرائیلی حکام نے ماضی میں ہمیشہ اسرائیلی معاشرے کو متحد کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن اس میدان میں کامیابی نہیں ملی ہے اور طویل عرصے تک اسرائیل میں لبرل جمہوریت کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ کیونکہ حریدی گروہ اپنا نظریہ مسلط کرنے کے درپے ہیں، انہوں نے معیشت پر غلبہ حاصل کر لیا ہے، اور وہ لبرل اقدار کو تباہ کر رہے ہیں، اور اس وجہ سے اسرائیل سماجی، اقتصادی اور یہاں تک کہ سلامتی کے لحاظ سے بھی زوال سے دوچار ہو جائے گا۔
3: اسرائیل کے یقینی خاتمے کے بارے میں آباد کاروں اور سیاست دانوں کی حد درجہ بے توجہی۔
آپ کا تبصرہ